ابراہیم بھائی کا کیبن

وسعت اللہ خان

پچھلے بیس برس سے تو میں انہیں اسی طرح دیکھ رہا ہوں (معاف کیجیے گا دیکھ رہا تھا)۔

ایک عام سے پانچ فٹ چھ انچ کے نیم گنجے چھریرے ابراہیم بھائی۔نکڑ پر ایک رہائشی پلازہ کے ستون کی ایک جانب نکلا ہوا ایک فٹ گہرا، تین فٹ چوڑا، چھ ساڑھے چھ فٹ اونچا کیبن ابراہیم کی کل کائنات تھا۔ صبح نو سے رات بارہ تک کیبن کے فولڈنگ پھٹے کو میز بنا کے اس پر مسلسل پان لگاتے رہتے تھے۔نہ تھکن، نہ جھنجلاہٹ۔گرمی ہو کہ سردی، دوپہر ہو کہ شام میں نے کبھی ہاتھ رکتے نہیں دیکھا۔خدا جانے ان دو ہاتھوں میں کتنے ہاتھ تھے۔

ابراہیم بھائی جلدی سے پانچ سادہ پان بنا دو۔اچھا جی یار ابراہیم آدھا پیکٹ مالبرو تو پکڑانا۔۔۔یہ لیجئے ابراہیم میاں آٹھ سونف چھالیہ کے پیکٹ دے دو۔۔۔گن لیں۔ بھائی ابراہیم میں زرا جلدی میں ہوں ۔یہ ہوٹل والا آئے تو اسے یہ پارسل دے دینا ۔۔۔ٹھیک ہے جی بے فکر ہوجائیے۔ ابراہیم بھائی تمہاری ایک ہفتے کی چائے کے باون روپے بن گئے۔۔یہ پکڑ سو روپے اور اڑتالیس روپے جلدی سے لا کر دے۔ اللہ کے نام پے بابا جمعرات بھری مراد۔۔۔۔یہ لے اماں پانچ روپے۔ بابا اللہ کے نام پر ایک کے ٹو تو پلادے۔۔۔لے بابا اس پیکٹ میں سے نکال لے۔ ہر آتے جاتے پیاسے کے لیے ابراہیم بھائی نے زنجیر سے باندھ کر ایک بڑا سا پلاسٹک کولر رکھا ہوا تھا۔رات تک اس میں پچاس روپے کی برف پڑ جاتی تھی۔مسجد کا چندہ مانگنے والے اس کیبن پر ضرور رکتے تھے۔سامنے کے کالج کو گھورتے رہنے والے دو بیزار پلسئے ابراہیم بھائی سے صبح ہی صبح آدھا پیکٹ سگریٹ اور کچی پتی کے چار پان لیتے تھے۔البتہ ابراہیم بھائی اپنے مستقل گاہکوں کے ننھے بچوں کو ٹافیوں اور سونف کا بھتہ بحؤش دیتے تھے۔ان کے علاوہ میں نے کسی بھی سٹیٹ یا نان سٹیٹ ایکٹر کو ابراہیم بھائی سے بھتہ وصول کرتے نہیں دیکھا۔

بیس سال کے تعلقات کے بھروسے مجھے اندازہ تھا کہ ابراہیم بھائی اس کیبن سے روزانہ چھ آٹھ سو روپے کماتے ہیں ۔لیکن دو ڈھائی سو روپے ٹھنڈے پانی کے کولر، چائے، بچوں کی ٹافیوں، خیرات اور چندے کے سوالیوں میں یہیں کہ یہیں بٹ جاتے ہیں۔

ابراہیم بھائی بظاہر مذہبی آدمی نہیں تھے۔ان کی شیو اکثر بڑھ جاتی تھی لیکن داڑھی کے درجے پر پہنچنے سے پہلے ہی صاف ہو جاتی۔ تبلیغی جماعت والے بھی کبھی کبھی ان کے پاس سے گذرتے ہوئے لمحے دو لمحے کے لیے جنت، دوزخ، نماز روزے سے متعارف کروانے کی اپنے تئیں سعی فرماتے تھے مگر ابراہیم بھائی مسکرا کر اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی جانب اٹھا دیتے۔میں نے ابراہیم بھائی کو سوائے جمعہ کی دوپہر ایک آدھ گھنٹے کے لیے اپنا کیبن بند کرنے کے سوا کبھی وقفہ کرتے نہیں پایا۔

ابراہیم بھائی گھر میں سب خیریت تو ہے نہ ۔آج کل آپ جلدی دوکان بند کر رہے ہو۔۔۔بس بھائیوں کی دعا چاہیے ۔آپ کی بھابھی کو ڈاکٹر نے کینسر بتایا ہے ۔مگر فکر کرنے سے کیا فائدہ ۔جو ہم جیسے گنہگاروں کو بیماری دیتا ہے شفا بھی وہی دے گا۔۔۔چند دنوں بعد ابراہیم بھائی کی دوکان تین دن بند رہی۔مجھے اندازہ ہوگیا کہ بھابھی کو شفا مل گئی۔۔۔چوتھے دن ابراہیم بھائی ویسے ہی کیبن پر کھڑے تھے۔۔ویسے ہی کولر میں برف ڈل رہی تھی۔ویسے ہی فقیروں کو پانچ پانچ روپے بٹ رہے تھے۔ویسے ہی کوئی پان مانگ رہا تھا ، کوئی سگریٹ، کوئی سونف۔۔۔میں نے ابراہیم بھائی کو بغور دیکھا۔۔۔انہوں نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے چہرہ نیچے کرلیا۔۔۔

آج صبح بھی ابراہیم بھائی کا ساڑھے چھ بائی چار کا کیبن ویسے ہی کھلا تھا۔۔مگر ابراہیم بھائی کھڑے رہنے کے بجائے لیٹے ہوئے تھے۔۔۔انگلی آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھی۔عینی شاہدوں نے بتایا دو موٹر سائکل سوار آئے تھے۔پچھلا نقاب پوش تھا۔اگلے نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔

بس اتنا ہوا ہے کہ فٹ پاتھ کے دوسری طرف والے پان سگریٹ کے کیبن پر رش بڑھ چکا ہے۔۔۔